منگل، 24 ستمبر، 2013

دہشتگردی متاثرین اور دہشتگرد ہمدرد

دنیا بھر میں لوگ جب اپنی عبادات کے لئے عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں یا اپنے مذہبی جلوس یا کسی مذہبی تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو یقیناً اُنکے دماغ اُس وقت کچھ یہ خیالات ہوتے ہونگے کے اِس سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی- عبادت گاہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرنا ہے اِس بارے میں بھی عبادت کے دوران کچھ خیالات یقیناً آتے ہونگے مثلاً بچے کی فیس جمع کروانی ہے، گھر کا کرایا دینا ہے، عبادت گاہ آنے سے پہلے گھر میں کپڑے دھو کر ڈالے تھے واپسی تک وہ سوکھ چکے ہونگے انکو الگنی سے اُتارنا ہے وغیرہ- یہ تو ہو گئی باقی دنیا کے پُر امن ممالک کی بات اب ذرا وطن عزیز کا ذکر ہو جائے یہاں عبادت کے دوران انسانوں کو آخرت میں کامیابی سے زیادہ اِس بات کی فِکر ہوتی ہے کے وہ فلحال عبادت گاہ سے گھر تک کامیابی کے ساتھ بخیر و عافیت پوھنچ جائیں کہیں عبادت کے دوران کوئی خودکش بمبار نہ پھٹ جائے، عبادت گاہ سے باہر نکالتے وقت کوئی ہم پر فائر نہ کھول دے یا ہم پر راکٹ نہ داغ دے-
مکمل تحریر >>

منگل، 10 ستمبر، 2013

پاکستانی قوم، طالبان اور مذاکرات

آج کل ہر طرف طالبان سے مذاکرات کی باز گشت سنائی دیتی ہے- حال ہی میں ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئ اس میں بھی یہی طے پایا گیا کے طالبان سے مذاکرات ہی کیئے جائیں گے آپریشن مسلے کا حل نہیں، مسلے کے مذاکرات والے حل کو ہم پہلے بھی چودہ مرتبہ استعمال کر کے دیکھ چکے ہیں اور آج تک یہ مسلہ حل نہ ہو سکا اور پتا نہیں اس بار کیا بدل گیا ہے جو یار لوگ امید لگا کر بیٹھے ہیں کے اس بار مذاکرات سے سب حل ہو جاے گا طالبان اپنی مسلح کاروایاں چھوڑ کر باچا خان اور گاندھی کی طرح امن و عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کرنے لگیں گے- طالبان سے مذاکرات کے لئے کوئی پیشگی شرائط بھی نہیں رکھی گئی ہیں کے وہ ہتھیار ڈال دیں گے تو اب انتظار کیجئے بہت جلد پوری قوم طالبان سے مذاکرات کی برکات سے مستفید ہونے والی ہے 
مکمل تحریر >>

منگل، 3 ستمبر، 2013

پابندی کلچر

ستمبر 2001 کے بعد ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا کے اگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پاکستان میں ہوتا اور جہاز ٹکرائے جانے کا واقعہ پاکستان میں پیش آیا ہوتا تو اس سے نپٹنے کے لئے حکومت پاکستان کیا کرتی؟ بہت آسان حل تھا ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی- دیکھا جائے تو یہ لطیفہ ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے- حکومتیں ہوں یا عام شہری ہمارے پاس بیشتر مسائل کا ایک ہی مشہور زمانہ اور آزمودہ حل ہوتا ہے، مسلے کو حل کرنے کی بجاے مسلے سے متعلق چیز پر پابندی لگا دو- پرانی پاکستانی فلموں میں اکثر آپ نے دیکھا ہوگا جب ہیروئن گھر آ کر اپنے والدین سے محلے کے بدمعاشوں کی شکایت لگاتی ہے کے وہ مجھے چھیڑتے ہیں تو ہیروئن کے باپ پر جلالی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے، کل سے تیرا کالج جانا بند جس کے بعد ہیروئن اپنے کمرے میں بستر پر دراز ہو کر اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے تک آنسو بہاتی- اب یہ تو خدا جانے یا پھر فلم کا سکرپٹ رائیٹر جانے کے ہیروئن کو رونا کس بات پر آتا تھا اپنی بے بسی کی وجہ سے، تعلیم کے ادھورے رہ جانے پر یا پھر اپنے باپ کی پاکستانی حکمرانوں والی سوچ پر جو مسائل کا حل "پابندی" لگانا تجویز کرتے ہیں- بھلا یہ کیا بات ہوئی کے اگر کسی لڑکی کو محلے کے بدمعاش پریشان کرتے ہیں تو بدمعاشوں کا کچھ کرنے کی بجاے سیدھا اسکے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے- فلمیں وہی لوگ لکھتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور فلموں میں وہ ہی کچھ دکھایا جاتا ہے جیسا کے اس معاشرے میں سوچا اور سمجھا جاتا ہے- اگر فلمیں بھارتی سٹار پلس کے ڈراموں جیسی ہوں جس میں بھارت جیسے غربت زدہ ملک میں ہر دوسری عورت کروڑوں کی شاپنگ کرتی پھرے تو ظاہر ہے ایسی فلمیں باکس آفس پر بری طرح پٹ جائیں گی-

مکمل تحریر >>