منگل، 3 ستمبر، 2013

پابندی کلچر

ستمبر 2001 کے بعد ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا کے اگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پاکستان میں ہوتا اور جہاز ٹکرائے جانے کا واقعہ پاکستان میں پیش آیا ہوتا تو اس سے نپٹنے کے لئے حکومت پاکستان کیا کرتی؟ بہت آسان حل تھا ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی- دیکھا جائے تو یہ لطیفہ ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے- حکومتیں ہوں یا عام شہری ہمارے پاس بیشتر مسائل کا ایک ہی مشہور زمانہ اور آزمودہ حل ہوتا ہے، مسلے کو حل کرنے کی بجاے مسلے سے متعلق چیز پر پابندی لگا دو- پرانی پاکستانی فلموں میں اکثر آپ نے دیکھا ہوگا جب ہیروئن گھر آ کر اپنے والدین سے محلے کے بدمعاشوں کی شکایت لگاتی ہے کے وہ مجھے چھیڑتے ہیں تو ہیروئن کے باپ پر جلالی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے، کل سے تیرا کالج جانا بند جس کے بعد ہیروئن اپنے کمرے میں بستر پر دراز ہو کر اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے تک آنسو بہاتی- اب یہ تو خدا جانے یا پھر فلم کا سکرپٹ رائیٹر جانے کے ہیروئن کو رونا کس بات پر آتا تھا اپنی بے بسی کی وجہ سے، تعلیم کے ادھورے رہ جانے پر یا پھر اپنے باپ کی پاکستانی حکمرانوں والی سوچ پر جو مسائل کا حل "پابندی" لگانا تجویز کرتے ہیں- بھلا یہ کیا بات ہوئی کے اگر کسی لڑکی کو محلے کے بدمعاش پریشان کرتے ہیں تو بدمعاشوں کا کچھ کرنے کی بجاے سیدھا اسکے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے- فلمیں وہی لوگ لکھتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور فلموں میں وہ ہی کچھ دکھایا جاتا ہے جیسا کے اس معاشرے میں سوچا اور سمجھا جاتا ہے- اگر فلمیں بھارتی سٹار پلس کے ڈراموں جیسی ہوں جس میں بھارت جیسے غربت زدہ ملک میں ہر دوسری عورت کروڑوں کی شاپنگ کرتی پھرے تو ظاہر ہے ایسی فلمیں باکس آفس پر بری طرح پٹ جائیں گی-

 پاکستانی فلموں میں دکھائی جانے والی پابندی لگانے والی سوچ ہمارے ملک اور  معاشرے میں جا بجا پائی جاتی ہے اور فلم لکھاریوں کی طرح ملک کے حکمران بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجاے "پابندی" لگانے میں ڈھونڈتے ہیں- مثلاً غیر قانونی ڈور کی روک تھام نہیں ہو رہی تو کوئی بات نہیں بسنت پر پابندی لگا دو- دہشتگردی قابو نہیں آ رہی تو ڈبل سواری اور موبائل کے استعمال پر ہی پابندی لگا دو- یوٹیوب پر ایک ویڈیو کو بلاک نہیں کیا جا رہا تو یوٹیوب پر ہی پابندی لگا دو- ملک میں جب ڈینگی کی وبا پھیلنا شروع ہوئی  اور مجھے پتا لگا کے یہ مچھر پانی میں پیدا ہوتا ہے تو مجھے پہلا خیال یہی آیا کے اب کہیں حکومت کو کوئی عالی دماغ مشیر ملک بھر میں پانی اور اسکے استعمال پر ہی پابندی لگانے کا مشورہ نہ دے دے- کراچی میں جب تاجروں کو بھتے کی پرچیاں موصول ہونے لگیں تب بھی یہی خدشہ ہوا کے اب پتا لگے کراچی کے شہریوں کو بھتہ خوروں سے نجات دلانے کی بجاے کہیں کاغذ اور قلم پر ہی نہ پابندی لگا دی جائے کہ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری، نہ ہوگا شہر میں کاغذ و قلم نہ ہونگی لوگوں کو بھتے کی پرچیاں موصول-کچھ عرصے پہلے سوئس اور فرانسیسی حکام کی طرف سے میناروں اور سکارف پر پابندی کی خبر پڑھنے کے بعد کچھ دیر کے لئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یورپ کے ان ممالک کی حکومتوں میں بھی پاکستانی سیاستدان گھس گئے ہیں- کسی بھی چیز پر پابندی لگانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کے یا تو آپ اس سے خوفزدہ ہیں یا پھر آپ اتنے نا اہل ہیں کے اسکا کوئی حل پابندی کے سوا ڈھونڈ ہی نہیں سکتے- پابندی لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے اگر ایسا ہوتا تو آج بھی مصر میں فرعون کی حکومت ہوتی کیونکے جب فرعون کو نجومیوں نے اطلاع دی کے بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جسکی وجہ سے اسکی سلطنت چلی جائے گی تو فرعون کو بھی کسی عالی دماغ مشیر نے مسلے کا پاکستانی حل بتایا، بنی اسرائیل کے لڑکوں کی دنیا میں آمد پر ہی پابندی لگا دی جائے- اس سے مسلہ تو حل نہ ہوا الٹا قتل و غارت کا بازار ضرور گرم ہو گیا-

 حال ہی میں تازہ ترین پابندی پی ٹی اے کی طرف سے لیٹ نائٹ کال پکیجز اور موبائل چیٹ رومز پر عائد کی گئی ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کے اس سے ہماری نوجوان نسل کی اخلاقیات پر منفی اثر پڑتا ہے- یہ کافی مضحکہ خیز بات لگتی ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کمپیوٹر کی وجہ سے میری کمر میں درد ہوتا ہے لہٰذا کمپیوٹر کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے- اب انسان اسکے سوا کیا کہہ سکتا ہے کے کمر میں درد کمپیوٹر کے استعمال سے نہیں بلکہ کرسی پر گھنٹوں بیٹھنے سے ہوتا ہے- مسلے کا حل کمپیوٹر پر پابندی نہیں بلکہ کرسی پر گھنٹوں بیٹھنے سے گریز کرنے میں ہے یا پھر آپ کا کام ایسا ہے کے آپ کو گھنٹوں کرسی پر بیٹھنا پڑتا ہے تو آپ کوئی آرام دہ کرسی خرید لیں- اگر آپ کو نوجوان نسل کی اخلاقیات کی اتنی ہی پرواہ ہے تو مسلہ کا حل نوجوان نسل کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانے میں ہے نہ کے پابندیاں لگانے میں کیونکے اکیسویں صدی میں اینڈرائڈ فون استعمال کرنے والی یہ نوجوان نسل کال اور نائٹ پکیجز پر پابندی لگانے سے اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹنے والی نہیں الٹا اسکا متبادل ڈھونڈنے والی ہے- آپ نائٹ پکیجز پر پابندی لگا دیں یہ سکائپ کا استعمال شروع کر دینگے آپ سکائپ پر بھی پابندی لگا دیں یہ وائبر کا استعمال شروع کر دینگے اور اگر آپ انٹرنیٹ پر ہی پابندی لگا دیں یا پاکستانی نوجوانوں پتھر کے زمانے میں لے جا کر چھوڑ دیں تو یہ وہاں بھی کبوتر پال کر اس سے پیغام رسانی کا کام لینا شروع کر دینگے- اسی لئے میرا خیال ہے کے اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانے میں ہی انکی بھلائی ہے ایسی پابندیوں سے صرف وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو یوٹیوب اور کال پکیجز کا مثبت استعمال کرتے ہیں- اب کوئی پوچھے لیٹ نائٹ کال پکیجز کا مثبت استعمال کیا ہو سکتا ہے تو انکے لئے عرض ہے بہت سے لوگ ان پکیجز کو اپنے ان عزیزوں سے بات کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے جو بیرون ملک رہتے ہیں اور بہت سے ایسے لوگ جو نائٹ ڈیوٹی کرتے ہیں انکے لئے یہ پکیجز بہت مفید تھے کیونکہ انکی بدولت بہت کم پیسے خرچ کر کے اپنے دیگر کولیگز کے ساتھ رابطے میں رہا جا سکتا ہے-


 آج کل عالمی طاقتیں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف بہت فکر مند ہیں اس چکر میں ایک ملک پر تو حملہ کرکے اسکا ستیاناس کر ہی دیا گیا اور دوسرے ملک پر بھی حملے کی تیاریاں جاری ہیں اور کسی بھی وقت یہ حملہ متوقع ہے- اس صورت میں ہم بھی " عالمی طاقتوں " کو مشہور زمانہ "پابندی" والا مشورہ دینا چاہیں گے کے کیوں نہ دنیا بھر میں کیمسٹری کی تعلیم اور لیباٹریوں پر پابندی لگا دی جائے- نہ لوگ کیمسٹری کی تعلیم حاصل کریں گے نہ ہی کیمسٹری کی لیباٹریوں کا رخ کریں گی اور نہ ہی دنیا میں کیمیائی ہتھیار تیار کیے جا سکیں گے- جب کیمیائی ہتھیار تیار ہی نہیں ہونگے تو انکے درست یا غلط استعمال کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب کیمیائی ہتھیار استعمال ہی نہیں ہونگے تو نہ لوگ زہریلی گیسوں سے مریں گے نہ ہی ان کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے عالمی طاقتوں کو کسی ملک پر چڑھائی کر کے مزید لوگ مارنے پڑیں گے- ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آے-

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔