پیر، 20 جنوری، 2014

جاوید چوہدری اور طالبان ترجمان - ایک مختلف نقطہ نظر

ہم بحثیت قوم وہ لوگ ہیں جو کسی بھی معاملے میں متوازن سوچ اور رویوں کے حامل نہیں- کرکٹ سے متعلق ہمارے رویے پر غور کرتے ہیں- جب ٹیم کوئی میچ ہارتی ہے تو وہی لوگ سب سے زیادہ لعن طعن کرتے ہیں جو پچھلے میچ کی جیت پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوتے- شاہد آفریدی کوئی میچ بہترین کارکردگی سے جتوا دے تو پوری قوم کا بس نہیں چلتا اُسکو دیوتا مان لے اور یہی آفریدی اگلے کسی میچ میں صفر پر آوٹ ہو جائے تو اُسکے تمام ناقدین اپنی توپوں کا رُخ اُسکی جانب کر دیتے ہیں اور اُسکے جارحانہ سٹائل پر تنقید شروع ہو جاتی ہے- اُسکے بارے میں لطائف گھڑ کر sms کیے جاتے ہیں- سیاست اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہمارا رویہ اسی طرح غیر متوازن ہے-

 کل رات ایکسپریز نیوز پر اسپیشل ٹرانسمیشن میں طالبان ترجمان اور جاوید چوہدری کے درمیان ہونے  والی گفتگو نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا ہے- بہت سے لوگ اس بات پر خفا ہیں کے طالبان ترجمان کو میڈیا نے پروگرام میں فون پر کیوں لیا- تو کچھ لوگ اینکر کو بُزدلی کے طعنے دے رہے ہیں- کچھ لوگ اس بات پر خفا ہیں کے کیا میڈیا والوں کی زندگیاں باقی پاکستانیوں سے زیادہ قیمتی ہیں جو جاوید چوہدری نے اپنے تین کارکنوں کی موت پر طالبان سے مُک مُکا کر لیا- بہت سے لوگوں کو یہ اعتراض ہے کے طالبان کو کوریج دینے کا وعدہ کر کے جاوید چوہدری نے قومی مفاد کے منافی کام کیا- ہمارے کچھ دوست تو ایسے بھی ہیں جو جاوید چوہدری کا موازنہ چوہدری اسلم سے کرنے لگے کہ دیکھو یہ بھی چوہدری وہ بھی چوہدری ایک کو طالبان ترجمان نے فون کیا تو اُس نے آگے سے طالبان ترجمان کو جھاڑ پلا دی اور یہ دوسرا تو ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا- میرے نزدیک تو ان دونوں چوہدریوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں- چوہدری اسلم ایک سپاہی تھا اور سپاہ میں بھرتی ہی بہادر لوگ کیے جاتے ہیں اُنکا کام ہی دشمنوں سے لڑنا ہوتا ہے- جاوید چوہدری کوئی سپاہی نہیں بلکہ ایک صحافی ہے جسکا کام خبریں اور معلومات عوام تک پہنچانا ہے- اگر آپ ایک صحافی سے امید کرتے ہیں کے وہ سپاہی کی طرح دشمن سے لڑنے لگ جائے (ٹاک شو میں فون پر زبانی ہی سہی) تو پھر وہ اپنا اصل کام نہیں کر سکے گا یعنی خبریں اور معلومات (جس میں طالبان کا موقف بھی شامل ہے) عوام تک پہنچانا- جو کام سپاہی کر گیا ویسی بہادری کی اُمید کسی صحافی سے رکھنا خام خیالی ہے-

جہاں تک بات ہے اینکر کے طالبان سے مُک مُکا کرنے کی تو لوگ یہ بات بھول رہے ہیں طالبان نے نشانہ اُن غریب ورکرز کو بنایا جو سٹوڈیو میں بیٹھ کر ایر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا میں کام نہیں کرتے بلکہ سڑک پر پائے جاتے ہیں- لہٰذا اگر اینکر طالبان سے یہ نہ بھی کہتا کے آپ ہمارے ان غریب ورکرز کو نشانہ مت بنائیں ان لوگوں کا تو میڈیا کی پالیسی سے بھی کوئی تعلق نہیں تو بھی اینکر حضرات کی جان کو اسلام آباد کے اسٹوڈیوز میں کوئی خطرہ نہیں تھا طالبان نے نشانہ آئیندہ بھی میڈیا کے اُن لوگوں کو بنانا تھا جو سڑکوں پر با آسانی نشانہ بنائے جا سکتے ہیں- مجھے اُسکی اپیل کا مقصد اُسکی خود کی جان بخشی کروانے سے زیادہ اُن غریب کارکنان کی جان بخشوانا نظر آتا ہے جن کو مستقبل میں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے- اس جان بخشی کے بدلے اینکر نے طالبان کو مناسب کوریج، اُنکا موقف پیش کرنے اور دیگر سہولیات کی جو آفر کی اس پر بھی کچھ دوستوں نے تنقید کی ہے کہ طالبان کے پریس ریلیز میڈیا پر چلینگے یہ ایک غیر مناسب بات ہوگی اور اِس سے مسائل میں اضافہ ہوگا- مگر اس بات کا ایک پہلو اور بھی ہے جو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کے طالبان کے بارے میں عوام کی رائے اس قدر منتشر ہی اس وجہ سے ہے کے میڈیا پر طالبان کو براہ راست پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مذہبی جماعتوں اور طالبان سے زیادہ طالبان کے وفاداروں کا پروپگینڈا کامیاب ہو رہا ہے- ہر واقعہ کے بعد میڈیا پر یہ خبر چلا دی جاتی ہے کے واقعہ کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی مگر براہ راست طالبان کی ذمہ داری قبول کرنے کی فون کال یا وڈیو نشر نہیں کی جاتی- یہی وجہ ہے کے فرید پراچہ جیسے طالبان ہمدرد میڈیا پر آ کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں کے ہم کیسے مان لیں کے دہشتگردی کے پیچھے طالبان ہیں- یہ تو میڈیا ہی ہمیں خبر دیتا ہے کے طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی- دوسرا سوال جو جماعتیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کے جب طالبان ترجمان میڈیا والوں کو فون کرکے آئے دن ذمہ داری قبول کرتا ہے تو خفیہ ادارے فون کال ٹریس کرکے اُس تک کیوں نہیں پہنچ جاتے؟ اُسکا جواب بھی اُمید ہے عوام تک پہنچ گیا ہوگا جب ٹاک شو میں اینکر نے بتایا کے یہ فون کال افغانستان سے آئی تھی- عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات سے ہی انکاری ہے کے طالبان کا پاکستان میں کوئی وجود ہے- لوگوں کا خیال ہے طالبان تو افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں پاکستان میں جو دہشتگردی ہوتی ہے وہ بیرونی طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کرواتی ہیں- طالبان ترجمان جب اپنا موقف میڈیا کے سامنے رکھے گا تو اس سے عوام آہستہ آہستہ حقیقت کو قبول کر ہی لینگے- طالبان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنی ہے تو اُسکا یہی طریقہ ہے کے طالبان کا موقف عوام کے سامنے رکھا جائے-

ایک اور بات جس پر بہت سے لوگوں نے غور نہیں کیا طالبان ترجمان نے میڈیا پر حملے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کے میڈیا نیوٹرل نہیں تھا وہ طالبان کی مخالفت کر رہا تھا اور جو تحریکِ طالبان پاکستان کی مخالفت کرے گا ہم اُس کو نشانہ بنائیں گے- یہ وہ نقطہ ہے جو پاکستانی عوام کی اکثریت جانتی نہیں ہے یا سمجھتی نہیں ہے- کچھ لوگوں کا خیال ہے طالبان امریکہ کے خلاف ہیں، کچھ کا خیال ہے وہ امریکی جنگ کے خلاف ہیں تو کچھ کے مطابق طالبان ڈرون حملوں کے خلاف ہیں یا ڈرون کا ردِ عمل ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے طالبان جمہوریت کے خلاف ہیں- طالبان ایک مسلح تحریک ہے جسکے اپنے اغراض و مقاصد ہیں وہ کسی ایک گروہ یا ملک کے خلاف نہیں ہیں وہ ہر اُس چیز کے خلاف ہیں جو اُنکی مخالفت کرتی ہے- اب چاہے وہ کوئی ملک ہو میڈیا ہو کوئی حکومت ہو یا کوئی نظام- جو طالبان کے خلاف ہوگا یا جسکے بھی عقائد طالبان کے عقائد سے میل نہیں کھاتے ہونگے وہ طالبان کے نشانے پر ہوگا- آج نہیں ہے تو کل ہوگا- اس میں وہ تمام مذھبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو آج طالبان سے زیادہ طالبان کے وفا دار بنے ہوئے ہیں وہ جانتے نہیں ہیں یا جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں کے طالبان نے فلحال اُنکو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہوا ہے مگر وہ بھی طالبان کے نشانے سے ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے کیونکہ طالبان مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں- جمہوری کوششوں پر نہیں- آپ جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے لاکھ طالبان اپولوجسٹ بن جائیں طالبان ہمیشہ آپ کو اپنے سے کمتر ہی سمجھیں گے کیونکہ وہ "جہاد" کر رہے ہیں اور آپ میڈیا پر بیٹھ کر اُنکی وکالت کر رہے ہیں بجائے اُنکے ساتھ عملی کوششوں میں حصّہ لینے کے- آج میڈیا نشانے پر ہے کل کو دائیں بازو کی مذھبی سیاسی جماعتیں بھی ہونگی- طالبان نے ایک حملہ قاضی حُسین احمد پر کیا بھی تھا مگر  مذہبی جماعتوں نے یہ بات نہیں سمجھی- وہ اس نقطہ کو جتنا جلد سمجھ جائیں ریاست اور خود اُنکے اپنے لئے اُتنا ہی بہتر ہوگا-

2 comments:

AQIB نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ اور میں تو اتنی متوازن تحریر آپ کے قلم سے پڑھ کے حیران ہوں.ڈ
میں آپ کی اس بات سے مکمل متفق ہوں کہ دہشتگردوں کا نقطۂ نظر سامنےآے اور لوگ جان سکیں اور خاص کر وؤ جو بھیڑچال میں ان کو ریکشن سمجھ رہے ہیں یا کسی ایک مسلک کے لوگ جو ان کو بغیر ملے بیٹھے اپنا سمجھ رہے ہیں لکن جاوید چودھری نے غلط اس لیے کیا کہ اس نے ایک دن قبل کالم لکھا اعتزاز شہید پے اور نیویارک کی مثال دی اور کہا کہ ریاست ناکام ہو تو لوگ اپنا دفاع خود کرنا شروع کر دیتے ہیں اور سراہا بھی اس نے, مگر افسوس جب بات اس پے آی تو اپنے ہی الفاظ کا پاس نہی رکھ سکا اسے اگر غریب کو بچانا تھا تو خود کو الگ رکھتا اگر وؤ سچ لکھتا ہے,صہی یا غلط کی بحث الگ.

Unknown نے لکھا ہے کہ

حوصلہ افزائی کا شکریہ جناب !
طالبان اگر شاہزیب خانزادہ کی طرح بے ضرر ہوتے تو پھر جیدا بلکل پاس رکھتا اپنے الفاظ کا :ڈ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔