بدھ، 14 مئی، 2014

جلسوں اور دھرنوں کی سیاست

زمانہ طالب علمی میں ایک بار یونیورسٹی کی طرف سے ایک ٹاک شو میں جانے کا اتفاق ہوا- ٹاک شو سے آپ شاید کوئی سیاسی ٹاک شو سمجھ رہے ہوں جس میں تین سیاستدان بیٹھے ہوتے ہیں ایک اینکر کے سامنے مگر یہ دوسرے فارمیٹ کا شو تھا- خبرناک یا ساحر لودھی شو جیسا، جس میں اینکر کے سامنے ایک یا دو مہمان ہوتے ہیں اور سامنے کچھ آڈینس بیٹھی ہوتی ہے- ہوا کچھ یوں تھا کہ ہماری کلاس میں ایک خاتون آئیں جو کے اُس شو کی کوآرڈینیٹر تھیں، اُنہوں نے پوچھا ٹاک شو  میں کون کون جانا چاہتا ہے؟ کئی طالب علموں نے حامی بھر لی اُنہوں نے موضوع بھی بتا دیا کے فلاں موضوع پر ہوگا اور یہ بھی کہا آپ کی پارٹیسیپیشن بھی ہوگی آپ لوگ مہمانوں سے جو کے اپنے شعبے کے ماہرین ہونگے سوال بھی پوچھ سکیں گے- شو لائیو نہیں تھا اگلے دن اتوار تھا صبح کے وقت اُس شو کی ریکارڈنگ ہونی تھی مجھ سمیت کئی طالب علم وقت پر آٹھ بجے یونیورسٹی پہنچ گئے جہاں سے اُن خاتون نے پک کرنے کے لئے گاڑی بھیجنی تھی- کچھ دیر بعد گاڑی آگئی اور ہم سب سٹوڈیو پہنچ گئے- وہاں جا کر ہم آڈینس میں بیٹھ گئے- شو کے ہوسٹ موصوف تاخیر سے پہنچے ریکارڈنگ کے لئے خیر جیسے تیسے ریکارڈنگ شروع ہوئی-

 آڈینس میں میرے برابر میں ایک خاتون بیٹھی تھیں جو اپنی بیٹی کے ساتھ آئی ہوئی تھیں- اُنہوں نے مجھ سے پوچھا آپ پڑھتے ہیں، میں نے کہا جی میں پڑھتا ہوں، چونکہ میں خود یونیورسٹی سے گیا تھا تو میں سمجھا شاید وہ بھی کسی دوسری یونی ورسٹی کی ٹیچر ہونگی، میں نے اُن سے پوچھا آپ کہاں پڑھاتی ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہیں بھی نہیں، میں نے کہا اچھا آپ اپنی بیٹی کے ساتھ آئی ہونگی یہ کس یونیورسٹی میں ہیں؟ اُن کا جواب تھا یہ ہاوس وائف ہے پڑھتی نہیں ہے- اب مجھے کچھ حیرت ہوئی کیونکہ میں سمجھ بیٹھا تھا کے آڈینس میں باقی لوگ بھی ہماری طرح یونیورسٹیوں سے ہی لائے گئے ہیں- یہ حیرت ریکارڈنگ ختم ہونے تک دور ہو گئی کیونکہ جب ریکارڈنگ ختم ہوئی تو وہ خاتون برابر والے سٹوڈیو میں کسی اور پروگرام کی ریکارڈنگ میں چلی گئی تھیں- تب مجھ پر یہ راز کھلا آڈینس میں تمام لوگ یونیورسٹیوں کے نہیں تھے آدھے تھے اور باقی آدھے چھوٹے موٹے ایکٹرز تھے جن کو عام طور پر آج کل ہم جرائم والے پروگرامز کی re-enactment میں کام کرتے دیکھتے ہیں یا پھر مایا خان کے مارننگ شو میں پرفارم کرتے دیکھتے ہیں- پروگرام میں شرکت کی جہاں تک بات تھی تو وہ غلط نکلی کیونکہ ٹاک شو کی اسسٹنٹ پروڈیوسر نے آ کر پہلے ہی اُن لوگوں کی نشان دہی کر دی تھی جن کو مائیک دیا جانا تھا اور جنہوں نے سوال کرنے تھے- پہلے سے طے شدہ لوگ اور طے شدہ سوالات- اب آپ یقیناً جان چکے ہوں گے ٹی وی ٹاک شوز میں جو ہمیں آڈینس بیٹھی نظر آتی ہے وہ کون ہوتے ہیں اور کہاں سے لائے جاتے ہیں، کچھ میرے جیسے ہوتے ہیں جو کسی یونیورسٹی، کالج سے لائے جاتے ہیں اور وہ شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اتوار کی نیند قربان کرتے ہیں اور باقی معاوضہ لینے والے اداکار ہوتے ہیں-

اس تمہید کے بعد ہم آتے ہیں آج کل ہونے والی سیاسی جلسوں اور احتجاجی دھرنوں پر، جس میں کامیابی کا معیار جلسے میں شریک افراد کی تعداد کو سمجھا جاتا ہے- جب کہ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں اگر کوئی جماعت لوگوں کی بڑی تعداد اکھٹی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو یہ اُنکی سیاسی کامیابی کی ضمانت نہیں- کسی جماعت کے عوام میں مقبول ہونے کی پہلے دلیل یہ ہوگی کہ لوگ اُن کے جلسے کا سنتے ہی خود ہی گھروں سے نکل پڑیں، اُن کو گھروں سے لانے کے لئے اگر گاڑیاں بھیجنی پڑیں باقائدہ مہم چلانی پڑے تو یہ جلسہ کامیاب نہیں بلکہ اِس کو کامیاب بنانے کی کوششیں کی جارہی ہونگی- لوگوں کی ایک معقول تعداد تو ٹی وی ٹاک شوز والے بھی اکٹھی کر لیتے ہیں مگر کیا مذکورہ بالا شو کو کامیاب سمجھا جائے؟ ہو سکتا ہے اُس شو کی ریٹنگ بڑی زبردست ہو مگر کیا جو اُس کا حقیقی مقصد تھا وہ پورا ہوا؟ میرا خیال ہے نہیں- اسی طرح جعلی جلسوں سے سیاسی جماعتوں کو ریٹنگ بھی بڑی اچھی مل جاتی ہوگی مگر اُن جلسوں کا جو حقیقی مقصد ہوتا ہے الیکشن میں ووٹ حاصل کرنا وہ پورا نہیں ہو پاتا- پاکستان میں جلسے جلوسوں کے لئے بندے فراہم کرنا ایک کاروبار بن چکا ہے آپ کو ہر شہر میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو جلسے جلوسوں کے لئے پیسے لے کر بندے فراہم کرتے ہیں- کچھ عرصے پہلے اس کاروبار پر ایک چینل نے ڈاکومنٹری بھی بنائی تھی- جب ایسی صورتحال ہو تو میرا نہیں خیال سیاسی کامیابی کا پیمانہ جلسے اور دھرنے ہو سکتے ہیں-

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

کچھ جلسون مین تو لوگ گن پوانٹ پر بھی لاءے جاتے ہین۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔