اتوار، 2 نومبر، 2014

پابندی مسئلے کا حل نہیں

ہر مرتبہ کی طرح اِس مرتبہ بھی محرم آتے ہی کچھ مخصوص موضوعات سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں زیرِ بحث نظر آ رہے ہیں- یہ موضوعات ہیں دہشتگردی اور عاشورہ کے جلوسوں کے حوالے سے- کچھ لوگوں کا خیال ہے امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہر قسم کے جلوسوں پر پابندی ہونی چاہیے تاہم کچھ کا خیال ہے سیاسی نہیں صرف مذہبی عبادات کو عبادت گاہوں تک محدود کیا جائے- اِس رائے کے حال لوگ اکثر فرقہ پرست قسم کے اور اکثر سیکولر بھی ہوتے ہیں- زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کیسا سیکولرزم ہے جو عبادات کی آزادی کی بات کرنے کی بجائے عبادات پر پابندی لگانا چاہتا ہے-

جلوسوں پر پابندی یا عبادت گاہوں تک محدود کرنے کے لئے دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں اول امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اِس طرح سے دہشتگردی کو روکا جا سکتا ہے- دوئم جلوسوں کی وجہ سے سڑکیں، ٹریفک اور کاروبار بند کرنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے شہریوں کو پریشانی ہوتی ہے- اگر ہم اول الذکر وجہ کا جائزہ لیں تو ہمیں پھر فوجی چھاونیوں، سکولوں، ہسپتالوں، مزارات، مساجد کو بھی بند کر دینا چاہیے اور کرکٹ پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں کچھ بھی محفوظ نہیں مذکورہ بالا تمام جگہوں پر حملے ہو چکے اور سری لنکن کرکٹ ٹیم کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا- اِس کے ساتھ ہمیں سیاست پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ بے شمار سیاستدانوں پر بھی حملے ہو چکے اور کئی اُس میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے- ہمیں عدالتوں پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ کئی وکلا اور جج صاحبان پر بھی حملے ہو چکے جسٹس مقبول باقر کا واقعہ تو زیادہ پرانہ نہیں جس میں وہ خوشقسمتی سے بال بال بچے تھے-

موخر الذکر وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ بلکل حقیقت پر مبنی بات ہے- جلوسوں کی وجہ سے واقعی ٹریفک سڑکیں اور کاروبار بند کرنا پڑتا ہے مگر صرف بڑے شہروں میں چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات میں یہ سب کیے بغیر بھی جلوس آرام سے گزر جاتا ہے- سوال یہ ہے کہ عاشورہ اور ربیع الاول کے جلوس دُنیا کے 255 میں سے کم از کم 175 ممالک میں نکالے جاتے ہیں- تو آخر صرف 1 ملک پاکستان کے چند شہروں میں ہی کیوں کاروبارِ زندگی معطل کرنا پڑتا ہے؟ اُس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ ہمارے ملک میں لشکرِ جھنگوی سپاہ صحابہ ٹائپ فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن سے جلوسوں کو خطرہ ہوتا ہے- جب ملک میں دہشتگردی نہیں تھی تب بغیر سڑکیں بند کیے جلوس آرام سے گزر جاتے تھے اور مستقبل میں بھی جب دہشتگردی نہیں ہوگی تب بھی جلوسوں کے لئے کوئی سڑکیں اور کاروبار بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی- ہمیں مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی بات کرنی چاہیے حکومتوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ دہشتگردی پر قابو پائیں بجائے اِس کے کہ شہریوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی بات کریں-

جہاں تک عبادات کو عبادت گاہوں تک محدود کرنے کی بات ہے تو اِس سے بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا- احمدی، بوہری، ہندو اور عیسائی تو کوئی جلوس نہیں نکالتے مگر اُن کی عبادت گاہوں پر بھی حملے ہو چکے ہیں- یہ حملے نہ تو امریکی جنگ کا نتیجہ ہیں نہ ڈرون کا ردِ عمل ہیں نہ جلوسوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں بلکہ یہ حملے اُس انتہاء پسند سوچ کا نتیجہ ہیں جو ہمارے ملک میں موجود ہے جو اپنے سوا سب کو واجب القتل سمجھتی ہے- یہ سوچ نازی فاشزم سے کافی مماثلت رکھتی ہے جو صرف ایک مخصوص گروہ کو زندہ رہنے کا حق دینا چاہتی تھی- پاکستان کے اعتدال پسند شہریوں کو متحد ہو کر اِس فاشسٹ سوچ کا نہ صرف مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ اِس کو شکست بھی دینی ہوگی ورنہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں ہے-

2 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے کہ

مسئلے کا حل آپ نے پیش کیا ہے وہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ مگر آپ نے اصل مسئلے کی بات تو کی ہے مگر حل پیش نہیں کیا۔ یعنی سڑکوں پر مذہبی جلوس نکالنے سے جو کاروبار معطل ہوتا ہےاور عام پبلک کیلیے تکلیف کا باعث بنتا ہے آپ نے اس کا حل پیش نہیں کیا۔ دنیا کے سارے مہذب ممالک میں مذہب آزاد ہیں مگر وہ پبلک کیلیے مسائل پیدا نہیں کرتے بلکہ انہیں سہولتیں دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی تنظیمیں ہیں جو فلاح عامہ کے کام کرتی ہیں۔ معاف کیجئے گا شیعہ کمیونٹی پاکستان میں ایسی جو فلاحی کاموں سے بہت دور ہے۔ اچھا ہوتا جتنا خرچ ان تازیوں اور جلوسوں پر خرچ ہوتا ہے اس سے غریبوں کی مدد کی جاتی۔
جو لوگ تہواروں کو عبادت گاہوں تک محدود کرنے کی بات کرتے ہیں آپ نے انہیں یک جنبش قلم دین اسلام سے خارج کر دیا ہے۔ یہ بھی انتہاپسندی ہی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم بھی اسی حق میں ہیں کہ ان مجالس اور جلوسوں کو شہروں کے سٹیڈیم میں ہونا چاہیے۔ یعنی شہر میں ایک جگہ مخصوص کر دی جائے جاں تمام فرقے مذہبی آزادی کیساتھ اپنے اپنے تہوار منا سکیں۔
ہمارا مطالبہ ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے مذہب کو دنوں اور مہینوں تک کیوں محدود کر دیا ہے۔ محرم کے مہینے میں ہم پرہیزگار بن جاتے ہیں اور باقی گیارہ مہینے وہ طوفان بدتمیزی مچاتے ہیں کہ اللہ پناہ۔ نہ نماز روزہ نہ دوسرے فرائض، بس محرم میں عزہ داری کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بخشے گئے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

میں نے کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا میں نے یہ کہا ہے کہ پابندی کا مطالبہ کرنے والوں میں فرقہ پرست اور سیکولر دونوں قسم کے افراد شامل ہیں-
شیعہ کمیونیٹی کے فلاحی کاموں پر زیادہ بہتر روشنی تو اُسی کمیونیٹی کا کوئی فرد ڈال سکتا ہے مگر آغا خان کے فلاحی کاموں سے تو میں بھی واقف ہوں-
جلوس کی وجہ سے کاروبار اور سڑکیں ہمیشہ سے بند نہیں ہوتا تھا یہ صرف دہشتگردی کی وجہ سے ہوتا ہے، میرے بچپن میں ایسا کچھ نہیں تھا جلوس ٹریفک اور کاروبار سب ساتھ ساتھ چلتے تھے- اب بھی چھوٹے شہروں میں جہاں امن ہے ایسا ہی ہوتا ہے- یا تو ہم یہ تسلیم کر لیں کہ یہ دہشتگردی مسلسل رہے گی اور ہم اِس پر قابو نہیں پا سکتے تو پھر جلوسوں کو مخصوص جگہوں تک محدود کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ دہشتگردی مستقل مسئلہ نہیں اور ہم جلد یا بدیر اِس پر قابو پا لیں گے یا پانے کی اہلیت رکھتے ہیں تو پھر اُسی حل کی طرف جانا چاہیے نہ کے لوگوں کی مذہبی آزادی چھیننی چاہیے-
اگر شہر میں گاڑیاں چوری ہوتی ہوں یا گاڑیوں کی زیادتی کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل ہوں تو گاڑی چلانے پر پابندی نہیں لگائی جاتی بلکہ سڑکوں کو چوڑا کیا جاتا ہے یا چوروں کو پکڑا جاتا ہے-

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔