منگل، 27 اگست، 2013

ہم اور ہماری سوچ

کچھ عرصے سے ملک بھر میں پولیو ورکرز کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے دل خراش واقعات پیش آ رہے ہیں جسکی بنیادی وجہ معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت،انتہا پسندی،عدم برداشت اور تنقیدی سوچ کا فقدان ہے- یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے میں افواہ سازی بہت آسان کام ہے اور بے بنیاد باتیں بہت جلد مشہور ہو جاتی ہیں اور نہ صرف مشہور ہو جاتی ہیں بلکہ لوگ انکو من و عن تسلیم بھی  کر لیتے ہیں- پولیو ویکسین کے بارے میں بنیادی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کے یہ یہودیوں کی ایک سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے، اگر ایسا ہے تو خود یہودی اسرائیل میں اپنے بچوں کو یہی ویکسین کیوں دیتے ہیں؟

ہمارے ملک میں ملالہ سے لے کر پولیو ویکسین اور زمرد خان تک ہر دوسری چیز انتہائی متنازع ہو جاتی ہے یا شاید متنازع بنا دی جاتی ہے- میں نے اس پر بہت سوچ بچار کی کے ہم ایسے کیوں ہیں؟ ملک میں ہر دوسرا شخص آپ کو اپنے سازشی مفروضے نہ ماننے پر دی ارائیول نامی ڈوکیومنٹری دیکھنے کا مشورہ کیوں دیتا ہے؟ ڈینگی سے لے کر سیلاب تک ہر چیز کو سازش کیوں قرار دے دیا جاتا ہے؟ دوسرے امکانات پر غور کیوں نہیں کیا جاتا؟ جب ہمارے ملک کے کرکٹر سٹے بازی کر کے ملک و قوم کو بدنام کرتے ہیں تو پورا ملک اس پر بھارتی سازش کا راگ یک زبان ہو کر الاپنے لگ جاتا ہے اور جب بعد میں وہی کرکٹر عدالت میں ثبوت سامنے آ جانے پر اپنا جرم قبول کر کے ساری تفصیلات بیان کر دیتے ہیں تو ملک و قوم کو شرمندگی کے مارے چپ لگ جاتی ہے

 اس رویے کی بنیادی وجہ مجھے ہمارے تعلیمی نظام اور کلچر میں نظر آتی ہے- ہمارے تعلیمی نظام میں چیزیں رٹنے پر زور دیا جاتا ہے کے یہی وہ طریقہ ہے جس سے امتحان میں اچھے نمبر حاصل ہو سکیں گے تعلیم کا مقصد شعور و آگہی نہیں بلکہ امتحان میں کامیابی ہوتا ہے- ہمارے کلچر اور روایات میں بھی سوال جواب کرنے کو زبان درازی کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کے جو بڑے بتا دیں اس کو من و عن تسلیم کر لینا ہے سوال جواب کی کوئی گنجائش نہیں- بچوں کو سوچنے، غور کرنے اور عقل کے استعمال کی ترغیب نہیں دی جاتی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے ہمارے معاشرے میں لوگ غور فکر کرنے کی بجاے سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلاتے ہیں کوئی اپنی عقل کا استعمال کرکے بات کی صداقت کو جانچنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ بات کی صداقت کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کے فلاں نے کہا ہے تو سچ ہی کہا ہوگا فلاں پانچ وقت کا نمازی ہے جھوٹ بول ہی نہیں سکتا- یہی وجہ ہے کے جب منبر پر بیٹھا مولوی کسی بھی چیز کے بارے میں جوش خطابت دکھاتا ہے تو عوام اس چیز کو جانے اور سمجھے بغیر مولوی صاحب کی بات کو فوراً تسلیم کر لیتے ہیں چاہے مولوی صاحب میڈیکل کی بنیادی باتوں کی معلومات کے بغیر یہی کیوں نہ کہہ دیں کے فلاں ویکسین فلاں کی سازش ہے نمازیوں میں اگر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر بھی موجود ہوگا وہ بھی اسی میں اپنی عافیت جانے گا کہ چپ چاپ بیٹھا رہے اور مولوی صاحب کی تصحیح سے گریز کرے-

 جب معاشرے کی اجتماعی صورتحال یہ ہے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہمیں یہاں قدم قدم پر فضول اور لغو باتیں پھیلی نظر آتی ہیں مثلا بلی آگے سے گزر جائے تو راستہ بدل لو، اپنے گھر کی جھاڑو کسی کو ادھار نہیں دیتے،جمعرات کے دن علاج شروع نہیں کروایا جاتا اور منگل کے دن ناخن کاٹنے سے منع کیا جاتا ہے-بچپن میں یہ سب میں نے بھی اپنے بڑوں سے سنا تھا اور حسب عادت سوال کیا کے آخر ایسا کرنے سے کیا ہوگا اور  کیوں ایسا کرنے سے منع کیا جاتا ہے؟ تو مجھے آگے سے یہ جواب ملا کے ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے اور انہوں نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا ہم کوئی تمہاری طرح بدتمیز تو تھے نہیں جو اپنے بڑوں سے سوال جواب کرتے- مگر بچپن کے یہ سوالات میرے دماغ میں ہمیشہ رہے اور ظاہر ہے جب میں نے اپنی عقل کا استعمال شروع کیا تو مجھے یہ بات آسانی سے سمجھ آ گئی کے یہ فضول باتیں ہیں سارے دن برابر ہوتے ہیں- ان باتوں میں اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں کے یہ نسل در نسل سنی سنائی باتیں ہیں جن پر نہ کبھی کسی نے غور کرنے کی کوشش کی اور نہ اسکی وجہ جاننے کی ضرورت محسوس  کی اسی وجہ سے اکیسویں صدی میں بھی یہ ہم تک پوھنچی ہیں- 


اب اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو بخوبی سمجھ آ جائیگا کے پاکستان میں جعلی عامل، پیر فقیر، ڈبل شاہ اور آغا وقار جیسے لوگ کیوں لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں-یہاں پر جعلی ڈگری والے چرب زبان  کامیاب مذہبی شخصیات کیونکر بن جاتے ہیں اور ہروقت سازش کا راگ الاپنے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم کرنے والے جن کی باتوں کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا وہ  کامیاب دفاعی تجزیہ نگار کیسے بن جاتے ہیں- جس معاشرے میں ایک شخص اٹھ کر پانی سے گاڑی چلانے کا دعوا کرے اور میڈیا اسکو سنجیدگی سے لے اس پر باقاعدہ پروگرام کرے عوام ملک کے کچھ شہروں میں اسکی حمایت میں ریلیاں نکالیں اور یہاں تک کے ملک کے چوٹی کے سائنسدان بھی اسکے حوالے سے دو دھڑوں میں تقسیم نظر آیں (ویسے دو دھڑے کہنا کچھ مناسب نہ ہوگا کیونکے ایک جانب اصل سائنسدان تھے اور دوسری جانب ایک ہی صاحب تھے جو ملک کے حقیقی سائنسدانوں سے بھی زیادہ مقبول ہیں) تو اس کا مطلب ہے اس معاشرے میں لوگوں کے اندر تنقیدی اور غیر جانبدارانہ سوچ کا شدید فقدان ہے اور اس معاشرے میں لوگ سوچنے سمجھنے سے اس قدر عاری ہیں کے آپ کو اپنا حریف کا کاروبار تباہ کرنے کے لئے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں صرف اسکے بارے میں افواہیں پھیلا دیں کے اسکا تعلق ایک مخصوص فرقے سے ہے لوگ خود ہی اس سے سامان خریدنا چھوڑ دیں گے اور کوئی اس بات کی تحقیق بھی نہیں کرے گا کے ان افواہوں میں کوئی صداقت ہے بھی کے نہیں-


 مجھے یہ بات بھی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کے جب ہم یہودیوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں مثلا پیپسی کوکا کولا، فیس بک وغیرہ کی مصنوعات استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تو ہمارے ملک کے اندر پاے جانے والے مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگوں  کی بنائی ہوئی مصنوعات استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟ دنیا بھر میں باشعور قومیں اپنی ملکی مصنوعات کو فروغ دیتی ہیں اور غیر ملکی در آمدات پر انحصار کم سے کم کرتی ہیں اس سے زر مبادلہ بچتا ہے اور ملک و قوم کا ہی فائدہ ہوتا ہے- مگر ہم وہ انوکھی قوم ہیں جو اپنے ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں صرف اس  وجہ سے کے ہمارے کسی مخصوص گروہ سے مذہبی اختلافات ہیں اور ان اختلافات کے نتیجے میں ہم اپنوں کا نقصان اور غیروں کا فائدہ کرتے ہیں-


ہماری یہ بے سروپا سوچ ہی ہے جسکی وجہ سے آج قوم صرف ایک ہی بات پر متفق ہے کے کسی بھی بات پر اتفاق نہیں کرنا، چاہے وہ دہشتگردی ہو یا عید کا چاند پاکستانی اسوقت شاید دنیا کی واحد قوم ہے جسکا کسی بھی چیز پر اتفاق نہیں ہوتا- امید ہے آپ بھی میری ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے مگر بلاگ کی یہ پوسٹ ان لوگوں کے لئے ہے جو میری طرح اس ساری صورتحال پر سر کھپاتے ہیں کے ہم جیسے ہیں ہم ویسے کیوں ہیں؟ میں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی اور جو جواب سمجھ آیا اسکو آپ کے سامنے پیش کر دیا آپ اس سے اتفاق کریں یا اختلاف آپ کی راے اور تبصروں کا انتظار رہے گا-

5 comments:

LubnaEhsan1 نے لکھا ہے کہ

بہت اچھا لکھا ہے . شاباش

Unknown نے لکھا ہے کہ

حوصلہ افزائی کا شکریہ

mkj نے لکھا ہے کہ

Wonder full, the exact and real picture of our society:
Simply I would like to say great Analysis

Unknown نے لکھا ہے کہ

thank you

الشیخ الاکبر نے لکھا ہے کہ

Quran, in its initial period encourages use of reason and observation to think and form certain opinion about things of religion and universe. In this regard, the people of Arab are severely criticized who did not use reason and observation to arrive at knowledge of religious and everyday truths and rather totally relied customary beliefs. However, as soon as Islam became strong, it abandoned its practice and firmly encouraged belief on customary Islamic principles. This about face- has left a deep scar on the face of Islam.

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔