پیر، 30 دسمبر، 2013

نئے سال کا آغاز اور حادثات کی یلغار

آج سے دو دن بعد نیا سال شروع ہونے والا ہے- دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا آغاز مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے- مگر ان میں سے کوئی بھی طریقہ اس قدر واہیات اور بھونڈا نہیں ہے جس طرح سے پاکستان میں نئے سال کا آغاز کیا جاتا ہے- پاکستان میں نئے سال کا استقبال ہوائی فائرنگ اور سڑکوں پر موٹرسائیکلوں کے کرتب سے کیا جاتا ہے- ان دونوں طریقوں میں مسئلہ یہ ہے کے یہ انتہائی خطرناک ہیں نہ صرف اپنے لئے بلکہ دیگر لوگوں کے لئے بھی- ہمارے ہر سال کا آغاز ہی حادثات سے ہوتا ہے جو سارا سال ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے- انتہائی افسوسناک خبروں کے ساتھ ہمارے بیشتر تہواروں کا اختتام ہوتا ہے چاہے وہ بسنت ہو یا نیو ائیر نائٹ-

مکمل تحریر >>

بدھ، 13 نومبر، 2013

جماعت اسلامی اور کنفیوزڈ عوام

پروپگنڈے کے فن میں جتنی مہارت جماعت اسلامی کو حاصل ہے اگر آج ہٹلر زندہ ہوتا تو وہ یقیناً اپنے وزیر اطلاعت گوئبلز کو ٹریننگ کے لئے منصورہ بھیج دیتا- غالب اگر موجود ہوتے تو وہ یقیناً فرماتے:

پروپگینڈے  کے  تم  ہی  اُستاد  نہیں  ہو  گوئبلز
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی منور حسن بھی تھا

ملالہ کو گولی لگنے کا واقعہ ہو، طالبان کے دھماکے ہوں یا کوئٹہ میں لشکر جھنگوی کی کاروائیاں ہوں ان سب واقعات کو جماعت نے ہمیشہ تیسری قوتوں کے کھاتے میں ڈال کر طالبان کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی بعض اوقات تو خطرہ محسوس ہوتا تھا کے کہیں طالبان بُرا ہی نہ مان جائیں کے وہ اتنی محنت سے کاروائیاں کرتے ہیں پھر اُسکی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور جماعتی مولوی سارا کریڈٹ امریکہ انڈیا اور اسرائیل کو دے دیتے ہیں-

مکمل تحریر >>

بدھ، 23 اکتوبر، 2013

قِصّہ چچّا مزمّل سے ملاقات کا

چچّا مزمّل سے میری جان پہچان کافی پُرانی ہے- وہ میرے بچپن سے ہی ہمارے محلّے دار ہیں- ستر کی دھائی سعودیہ میں گزارنے کے بعد اسّی کی دھائی اُنہوں نے افغانستان میں روسیوں سے لڑتے ہوے گزاری اور 90 کی دھائی افغانستان کی خانہ جنگی پر کُڑھتے اور پاکستان میں سیاسی میوزیکل چیر پر تشویش کرتے گزاری- تاہم اُنکی تشویش 1996 میں مسّرت میں تبدیل ہو گئی تھی جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی-  اب وہ محلّے میں فیصل جنرل اسٹور نامی کریانے کی دُکان چلاتے ہیں- اگرچہ اُنکے خاندان میں دور دور تک فیصل کسی کا نام نہیں، میرے پوچھنے پر ایک دفعہ اُنہوں نے بتایا کے اُنہوں نے اپنے سعودیہ میں قیام کے دوران فیصلہ کر لیا تھا اب کی بار اگر خدا نے اولاد نرینہ سے نوازا تو اسکا نام برادر اسلامی ملک کے سربراہ کے نام پر فیصل رکھیں گے- اِسکے بعد بیٹا تو اُنکا کوئی نہ ہوا اور جو بڑے بیٹے موجود تھے اُنکی تبدیلیِء نام کے لئے کافی دیر ہو چکی تھی- اب تک امّت اخبار پڑھ پڑھ کر اُن کا ٢٠٠١ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کا غم بھی کافی حد تک دور ہو چکا ہے- آے دن وہ مجھے امّت اخبار کی وہ خبریں دکھاتے ہیں جن کے مطابق امریکیوں کو افغانستان میں شرمناک شکست ہوئی ہے اور اوریہ مقبول جان کو کوٹ کرتے ہیں کے تاریخ اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دُہراے گی اور دو صدیوں میں تین سپر پاورز کو شکست دینے کا کریڈٹ برادر اسلامی ملک افغانستان کے حصے میں آے گا-
مکمل تحریر >>

منگل، 24 ستمبر، 2013

دہشتگردی متاثرین اور دہشتگرد ہمدرد

دنیا بھر میں لوگ جب اپنی عبادات کے لئے عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں یا اپنے مذہبی جلوس یا کسی مذہبی تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو یقیناً اُنکے دماغ اُس وقت کچھ یہ خیالات ہوتے ہونگے کے اِس سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی- عبادت گاہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرنا ہے اِس بارے میں بھی عبادت کے دوران کچھ خیالات یقیناً آتے ہونگے مثلاً بچے کی فیس جمع کروانی ہے، گھر کا کرایا دینا ہے، عبادت گاہ آنے سے پہلے گھر میں کپڑے دھو کر ڈالے تھے واپسی تک وہ سوکھ چکے ہونگے انکو الگنی سے اُتارنا ہے وغیرہ- یہ تو ہو گئی باقی دنیا کے پُر امن ممالک کی بات اب ذرا وطن عزیز کا ذکر ہو جائے یہاں عبادت کے دوران انسانوں کو آخرت میں کامیابی سے زیادہ اِس بات کی فِکر ہوتی ہے کے وہ فلحال عبادت گاہ سے گھر تک کامیابی کے ساتھ بخیر و عافیت پوھنچ جائیں کہیں عبادت کے دوران کوئی خودکش بمبار نہ پھٹ جائے، عبادت گاہ سے باہر نکالتے وقت کوئی ہم پر فائر نہ کھول دے یا ہم پر راکٹ نہ داغ دے-
مکمل تحریر >>

منگل، 10 ستمبر، 2013

پاکستانی قوم، طالبان اور مذاکرات

آج کل ہر طرف طالبان سے مذاکرات کی باز گشت سنائی دیتی ہے- حال ہی میں ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئ اس میں بھی یہی طے پایا گیا کے طالبان سے مذاکرات ہی کیئے جائیں گے آپریشن مسلے کا حل نہیں، مسلے کے مذاکرات والے حل کو ہم پہلے بھی چودہ مرتبہ استعمال کر کے دیکھ چکے ہیں اور آج تک یہ مسلہ حل نہ ہو سکا اور پتا نہیں اس بار کیا بدل گیا ہے جو یار لوگ امید لگا کر بیٹھے ہیں کے اس بار مذاکرات سے سب حل ہو جاے گا طالبان اپنی مسلح کاروایاں چھوڑ کر باچا خان اور گاندھی کی طرح امن و عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کرنے لگیں گے- طالبان سے مذاکرات کے لئے کوئی پیشگی شرائط بھی نہیں رکھی گئی ہیں کے وہ ہتھیار ڈال دیں گے تو اب انتظار کیجئے بہت جلد پوری قوم طالبان سے مذاکرات کی برکات سے مستفید ہونے والی ہے 
مکمل تحریر >>

منگل، 3 ستمبر، 2013

پابندی کلچر

ستمبر 2001 کے بعد ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا کے اگر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پاکستان میں ہوتا اور جہاز ٹکرائے جانے کا واقعہ پاکستان میں پیش آیا ہوتا تو اس سے نپٹنے کے لئے حکومت پاکستان کیا کرتی؟ بہت آسان حل تھا ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی- دیکھا جائے تو یہ لطیفہ ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے- حکومتیں ہوں یا عام شہری ہمارے پاس بیشتر مسائل کا ایک ہی مشہور زمانہ اور آزمودہ حل ہوتا ہے، مسلے کو حل کرنے کی بجاے مسلے سے متعلق چیز پر پابندی لگا دو- پرانی پاکستانی فلموں میں اکثر آپ نے دیکھا ہوگا جب ہیروئن گھر آ کر اپنے والدین سے محلے کے بدمعاشوں کی شکایت لگاتی ہے کے وہ مجھے چھیڑتے ہیں تو ہیروئن کے باپ پر جلالی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے، کل سے تیرا کالج جانا بند جس کے بعد ہیروئن اپنے کمرے میں بستر پر دراز ہو کر اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے تک آنسو بہاتی- اب یہ تو خدا جانے یا پھر فلم کا سکرپٹ رائیٹر جانے کے ہیروئن کو رونا کس بات پر آتا تھا اپنی بے بسی کی وجہ سے، تعلیم کے ادھورے رہ جانے پر یا پھر اپنے باپ کی پاکستانی حکمرانوں والی سوچ پر جو مسائل کا حل "پابندی" لگانا تجویز کرتے ہیں- بھلا یہ کیا بات ہوئی کے اگر کسی لڑکی کو محلے کے بدمعاش پریشان کرتے ہیں تو بدمعاشوں کا کچھ کرنے کی بجاے سیدھا اسکے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے- فلمیں وہی لوگ لکھتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور فلموں میں وہ ہی کچھ دکھایا جاتا ہے جیسا کے اس معاشرے میں سوچا اور سمجھا جاتا ہے- اگر فلمیں بھارتی سٹار پلس کے ڈراموں جیسی ہوں جس میں بھارت جیسے غربت زدہ ملک میں ہر دوسری عورت کروڑوں کی شاپنگ کرتی پھرے تو ظاہر ہے ایسی فلمیں باکس آفس پر بری طرح پٹ جائیں گی-

مکمل تحریر >>

منگل، 27 اگست، 2013

ہم اور ہماری سوچ

کچھ عرصے سے ملک بھر میں پولیو ورکرز کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے دل خراش واقعات پیش آ رہے ہیں جسکی بنیادی وجہ معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت،انتہا پسندی،عدم برداشت اور تنقیدی سوچ کا فقدان ہے- یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے میں افواہ سازی بہت آسان کام ہے اور بے بنیاد باتیں بہت جلد مشہور ہو جاتی ہیں اور نہ صرف مشہور ہو جاتی ہیں بلکہ لوگ انکو من و عن تسلیم بھی  کر لیتے ہیں- پولیو ویکسین کے بارے میں بنیادی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کے یہ یہودیوں کی ایک سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے، اگر ایسا ہے تو خود یہودی اسرائیل میں اپنے بچوں کو یہی ویکسین کیوں دیتے ہیں؟

مکمل تحریر >>

بدھ، 21 اگست، 2013

فرقہ واریت اور ہمارا معاشرہ

فرقہ واریت ہمارے ملک کے مسائل میں سے ایک ایسا مسلہ ہے جو گزشتہ کچھ سالوں میں انتہائی شدت اختیار کر گیا ہے اور ملک کے بعض علاقوں  کوئٹہ،گلگت ،پاراچنار ،کراچی اور جنوبی پنجاب کو یہ عفریت مکمل طور پر  اپنی گرفت میں لے چکا ہے- افسوسناک بات یہ ہے کے کراچی کے بعض علاقوں، کوئٹہ اور پاراچنار میں ہر دوسرا گھرانہ فرقہ واریت کے ہاتھوں اپنے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ضرور کھو چکا ہے  اور ایسے بہت سارے خاندان ہیں جن کے یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے گھر کے تمام مرد حضرات  مار دیے گئے- اس سے بھی زیادہ پریشن کن بات یہ ہے کے عوام کی اکثریت اس بات کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہے کے اس قتل عام کے پیچھے کوئی فرقہ وارانہ محرکات ہیں زیادہ تر لوگ یا تو اسکو امریکا و دیگر بیرونی قوتوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں یا پھر اس پر سرے سے بات کرنے یا لکھنے سے ہی گریز کرتے ہیں- جو لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کے ہاں یہ قتل عام فرقہ وارانہ ہے وہ اسکا ذمہ دار امریکا کی افغانستان میں جنگ یا پھر خومینی انقلاب کو ٹہرا دیتے ہیں جب کے میری راے میں یہ مسلہ 1979 یا 2001 میں نہیں شروع ہوا اسکی تاریخ کافی پرانی ہے-

مکمل تحریر >>